جاہلیت کا صحیح مفہوم اور انتہا پسندوں کا باطل دعویٰ

  • | پير, 25 اگست, 2025
جاہلیت کا صحیح مفہوم اور انتہا پسندوں کا باطل دعویٰ

انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے معاشروں پر لگائے جانے والے سب سے خطرناک اور سنگین الزامات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ انہیں جاہلی معاشرے قرار دیتی ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے مکہ کا معاشرہ نبی اکرم ﷺ کی بعثت سے پہلے تھا، بلکہ اس سے بھی زیادہ بدتر۔ ان تنظیموں کی کئی تحریروں اور بیانات میں یہ دعویٰ ملتا ہے:

“ہم آج ایسی جاہلیت میں زندگی گزار رہے ہیں جو اس جاہلیت سے بھی زیادہ تاریک ہے جس کا اسلام نے مقابلہ کیا تھا۔ ہمارے ارد گرد سب کچھ جاہلی ہے: لوگوں کے تصورات اور عقائد، ان کی عادات و روایات، ان کے علمی اور ثقافتی ذرائع، ان کے فنون و ادب، ان کے قوانین اور ضوابط۔”

واضح ہے کہ یہ تمام خیالات براہِ راست اس نظریے سے جڑے ہیں جسے ہم نے پچھلی قسط میں تکفیر کے حوالے سے بیان کیا تھا۔ آج ہم ان سنگین الزامات کا جواب دینے کی کوشش کریں گے اور دیکھیں گے کہ کیا واقعی ہمارے معاشرے جاہلی ہیں؟ اس سوال کا جواب ہم چند نکات کے ذریعے دیں گے۔

پہلا نکتہ: جاہلیت کا مفہوم

لغوی اعتبار سے “جاہلیت” ایک مصنوعی مصدر ہے جو لفظ “جاهلی” سے نکلا ہے، اور “جاهلی” کا تعلق “جہل” سے ہے۔

قرآنِ کریم میں لفظ “جہل” مختلف صیغوں میں تقریباً بیس مقامات پر آیا ہے۔ جیسے:

“وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُوْنَ” [الانعام: 111]

ترجمہ: “لیکن ان میں اکثر لوگ جہالت کی باتیں کرتے ہیں۔”

اسی طرح فرمایا:

“قَالَ اِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُوْنَ” [النمل: 55]

ترجمہ: “انہوں نے کہا: تم لوگ جہالت کرتے ہو۔”

یہ اور دیگر مثالیں اسی عمومی مفہوم پر دلالت کرتی ہیں کہ “جہل” حقیقت سے ناواقف ہونا یا حقیقت تک نہ پہنچ پانا ہے۔ یہ لغوی معنی انتہا پسند تنظیموں کے رد میں نہایت اہم ہیں، کیونکہ وہ ہماری زندگی کو سراسر جاہلیت قرار دیتی ہیں۔

جہاں تک اصطلاحی مفہوم کا تعلق ہے تو “جاہلیت” اسلام سے پہلے کے دور کے لیے مخصوص ہے، یا زیادہ درست الفاظ میں، نبی اکرم ﷺ کی بعثت سے قبل کا وہ زمانہ جس میں بت پرستی، قبیلائی عصبیت، انتقام پر مبنی روایات اور وہ بڑے گناہ شامل تھے جن سے دینِ حنیف نے سختی سے منع کیا تھا۔

اسی لیے نبی اکرم ﷺ کی بعثت سے پہلے لوگوں کی اقوال و افعال کی بنیاد جہالت پر تھی۔ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا:

“اگر تم عربوں کی جاہلیت جاننا چاہتے ہو تو سورۃ الانعام کی یہ آیت پڑھو:”

“قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ قَتَلُوْۤا اَوْلَادَهُمْ سَفَهًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ حَرَّمُوْا مَا رَزَقَهُمُ اللّٰهُ افْتِرَآءً عَلَى اللّٰهِ قَدْ ضَلُّوْا وَمَا كَانُوْا مُهْتَدِیْنَ” [الانعام: 140]

ترجمہ: “بیشک نقصان میں پڑ گئے وہ لوگ جنہوں نے اپنی اولاد کو نادانی کے سبب بغیر کسی علم کے قتل کیا، اور جو کچھ اللہ نے ان کو دیا تھا اس کو اللہ پر جھوٹ باندھ کر حرام ٹھہرایا۔ بے شک وہ گمراہ ہوئے اور راہِ راست پر نہ آئے۔”

لہٰذا جب “جاہلیت” کو بطور زمانہ استعمال کیا جائے تو اس سے مراد وہ دور ہے جو اسلام کے ظہور سے پہلے کا تھا۔ عرب اس دور میں یا تو علم سے ناواقف تھے، یا علم کے تقاضوں پر عمل نہیں کرتے تھے، یا ان کا رویہ علم کے مطابق نہیں تھا۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ “جاہلیت” اس دور کا مجموعی وصف تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر فرد جاہل تھا، کیونکہ عرب میں کچھ لوگ علم و حکمت میں معروف بھی تھے، مگر وہ اقلیت میں تھے۔ اس لیے اکثریت پر “جاہلی” کا اطلاق ہوا اور پورے دور کو “عہدِ جاہلیت” کہا گیا۔

اسلام لانے کے بعد عرب خود اعتراف کرتے تھے کہ وہ جاہلیت میں مبتلا تھے۔ حضرت حذیفہؓ نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا:

“یا رسول اللہ! ہم جاہلیت اور برائی میں تھے، پھر اللہ نے ہمیں یہ بھلائی دی۔ کیا اس بھلائی کے بعد پھر برائی آئے گی؟”

اسی طرح آپ ﷺ نے ایک صحابی سے فرمایا، جب اس نے اپنے بھائی کو ماں کے حوالے سے عار دلائی:

“تم ایسے شخص ہو جس میں ابھی بھی جاہلیت باقی ہے۔”

حضرت جعفرؓ بن ابی طالب نے نجاشی سے کہا:

“اے بادشاہ! ہم جاہلیت کے لوگ تھے۔ بت پرستی کرتے، مردار کھاتے، بے حیائی کرتے، رشتے توڑتے اور پڑوسیوں کے ساتھ برا سلوک کرتے تھے۔”

یہ سب اس بات کا اعتراف ہے کہ اسلام نے جاہلیت کا خاتمہ کیا، اور بعد میں جو کچھ باقی رہا وہ اس کی چند عادات تھیں۔ لہٰذا آج کے معاشروں کو جاہلی کہنا علمی اور شرعی اعتبار سے درست نہیں۔

قرآنِ کریم میں “جاہلیت” کا تصور

قرآنِ کریم میں لفظ “جاہلیت” صرف چار مقامات پر آیا ہے اور ہر جگہ ایک مخصوص مفہوم کے ساتھ:

1. سورۃ آل عمران (154):

“یَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ غَیْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِیَّةِ”

ترجمہ: “وہ اللہ کے بارے میں ایسی گمانیاں کر رہے تھے جو حق کے خلاف اور جاہلیت کے مطابق تھیں۔”

یہ غزوۂ احد کے موقع پر بعض مسلمانوں کی بدگمانی پر تبصرہ ہے، جب وہ کہنے لگے کہ اگر محمد ﷺ نبی ہوتے تو کفار ان پر غالب نہ آتے۔ اسے “ظنِّ جاہلیت” کہا گیا۔

2. سورۃ المائدہ (50):

“أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ”

ترجمہ: “کیا یہ لوگ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ یقین رکھنے والے لوگوں کے لیے اللہ سے بہتر کس کا فیصلہ ہو سکتا ہے؟”

یہ آیت ان یہودیوں کی ملامت میں نازل ہوئی جنہوں نے نبی ﷺ سے فیصلہ مانگا لیکن چاہتے تھے کہ فیصلہ ان کی خواہشات کے مطابق ہو، جیسا کہ اہلِ جاہلیت کیا کرتے تھے۔

3. سورۃ الاحزاب (33):

“وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى”

ترجمہ: “اور اپنی زیب و زینت کو اس طرح ظاہر نہ کرو جیسے جاہلیتِ قدیمہ میں عورتیں کیا کرتی تھیں۔”

یہ عورتوں کو اس جاہلی عادت سے روکنے کے لیے ہے کہ وہ مردوں کے سامنے اپنی زینت ظاہر کریں۔

4. سورۃ الفتح (26):

“إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا ۚ وَكَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا”

ترجمہ: “جب کافروں نے اپنے دلوں میں جاہلیت کی ضد بھری ضد ڈال لی تھی تو اللہ نے اپنے رسول اور مؤمنوں پر اپنی تسکین نازل فرمائی اور ان کو تقویٰ کی بات پر قائم رکھا، اور وہ اس کے زیادہ اہل اور مستحق تھے۔ اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔”

یہ قریش کے رویے پر تبصرہ ہے جب انہوں نے صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمانوں کو مسجدِ حرام میں داخل ہونے سے روکا۔

ان چاروں مقامات سے ظاہر ہے کہ “جاہلیت” ایک مخصوص رویے، غلط سوچ یا عادت کا نام ہے، نہ کہ کسی پورے معاشرے کو کافر قرار دینے کا حکم۔

تکفیر اور جاہلیت کا غلط اطلاق

کسی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ مسلمان معاشروں کو جاہلیت یا کفر کا حکم دے، چاہے ان میں کبیرہ گناہ ہی کیوں نہ ہوں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

“مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ میں لوگوں کے دل چیر کر دیکھوں یا ان کے پیٹ پھاڑ کر معلوم کروں۔” [بخاری و مسلم]

لہٰذا قرآن و سنت کی روشنی میں “جاہلیت” کا اطلاق صرف ایک گزرے ہوئے دور یا مخصوص رویوں پر ہوتا ہے، نہ کہ آج کے مسلمان معاشروں پر۔

نتیجہ اور عملی سبق

یہ حقیقت واضح ہے کہ قرآنِ کریم میں “جاہلیت” کا لفظ کبھی بھی اس معنی میں استعمال نہیں ہوا کہ کسی شخص کو کافر قرار دیا جائے یا اسے ایمان کے دائرے سے خارج کیا جائے۔ اس لیے جو شخص یا تنظیم آج کے مسلمانوں کو “اہلِ جاہلیت” کہے وہ دراصل ظلم کا ارتکاب کرتی ہے، اور ظلم قیامت کے دن اندھیروں کا سبب بنے گا۔

اے عزیز قاری! اپنے منصفانہ معیار میں یہ بات شامل کرلو کہ ہر اس شخص سے دور رہو جو موجودہ مسلمانوں کو جاہلیت یا کفر کا طعنہ دے۔ کیونکہ ایسی سوچ نہ صرف کروڑوں انسانوں پر ناحق الزام ہے بلکہ امت کو انتشار میں ڈالنے کا ذریعہ بھی ہے۔ علم کو اہلِ حق سے حاصل کرو، اور اپنی زندگی کو معاشرے کے ساتھ اتحاد و یگانگت میں بسر کرو۔ کیونکہ ہماری اصل طاقت ہمارے اتحاد میں ہے، اور ایک کلمہ اور ایک دل پر اتفاق الٰہی اور نبوی حکم ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں۔

Print
Tags:
Rate this article:
No rating

Please login or register to post comments.