مذہب، قوميت يا رنگ ونسل كے بنا پر قتل

2

  • 11 جنوری 2017

كہتے ہيں كہ الله كے راه ميں زندگى جينا اُس كى راه ميں مرنے سے بہتر ہے كيونكہ اسلام ميں زندگى كى قيمت بہت عظيم ہے اور ہمارا مذہب زميں كى تعمير وترقى پر زور ديتا ہے۔ اسلامى نقطۂ نظر سے ايك انسان پر ناحق حملہ پورى انسانيت پر حملہ كے برابر ہے۔ چنانچہ ايك عام اصول كے تحت ہر مسلمان ايك خاص سلوك اور رويے كا پابند ہے ارشاد بارى ہے: (اس قتل کی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ حکم نازل کیا کہ جو شخص کسی کو (ناحق) قتل کرے گا (یعنی) بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے اُس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کیا اور جو اس کی زندگانی کا موجب ہوا تو گویا تمام لوگوں کی زندگانی کا موجب ہوا) (سورۂ مائده: 32)  آج شناخت كے نام پر قتل ہو رہا ہے جو اسلام سے پہلے جاہليت ميں جزيرۂ عرب كى متشدد اور متعصب عادات كى نشاندنى كرتى ہے.  سركار دو عالم حضرت محمدؐ نے اس سے سختى سے منع كيا ہے ، آپؐ فرمايا: «يہ (پكار) چهوڑ دو، يہ غليظ اور ناپسنديده ہے۔» (رواه الشيخان وغيرهما)

قتل اور تباہى مچانے والى يہ جماعات مذہبى شناخت كے بنياد پر قتل كرتے ہيں اور مظلوموں كا خون بہاتے ہيں  جبكہ كسى كا دين يا مذہب ميں ہم سے مختلف ہونا ہميں اسے قتل كرنے كا حق نہيں ديتا۔ يہ مسلح عناصر جو بچوں اور خواتين كوبے رحمى سے قتل كرتے ہيں، مردوں كے سر قلم كرتے ہيں اور اُن كى ناموس كى آبروريزى كرتے ہيں  اور افسوس در افسوس يہ نفرت انگيز جرائم وه اس دين كے نام پر كرتے ہيں جس نے حالتِ جنگ ميں بهى بچوں، عورتوں اور بوڑهوں كو قتل سے منع كيا ہے۔ وه دين جو جانوروں، پودوں اور ہر جاندار چيز كے حقوق كا قائل ہے۔ وه دين جس كے نبى دنيا كے لئے رحمت بنا كر بهيجے گئے ہيں۔ جہاں بحث وتكرار اور تلخ كلامى بهى ممنوع ہے۔

لہذا بلاشك وشبہ ان مسلح افراد كو مسلمان نہيں بلكہ مسلمان دشمن كہنا بہتر ہو گا۔

Print

Please login or register to post comments.