اسلام ميں شرعى حدود

6

  • 15 فروری 2017

اسلام ميں حدود كى تشريع كسى بهى معاشرے كے افراد سے انتقام يا بدلہ لينے كى غرض سے نہيں بلكہ اس  كى حفاظت كى  غرض سے نافذ كئے گئے ہيں۔ كيا ماضى يا حاضر ميں كوئى ايسا ملك يا معاشره ہے جس نے اپنے  افراد كے حقوق كى  حفاظت كے لئے قوانين يا آئين نہ تيار كئے  ہوں جس كے تحت  قانون كے دائرے سے خارج ہونے والا ہر شخص  سزا كا مستحق ہوتا ہے؟!  پس اسلام ميں شرعى  حدود انسانى زندگى اور اس كى اہم ضروريات جيسے جان، نسب اور مال جيسى مقاصد كى حفاظت كا ايك وسيلہ ہے ،جس پر دراصل  اس كى زندگى اور اس كا وجود موقوف ہوتا ہے  اور  جس كو الله رب العزت نے بلند مقام عطا كيا ہے۔ ارشاد بارى ہے: (اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ان کو جنگل اور دریا میں سواری دی اور پاکیزہ روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی) (سورۂ بنى اسرائيل: 70) 
    اسلام عدل وانصاف اور رحمت كا دين ہے اسى لئے حدود كو نافذ كرنے كے لئے اسلام نے بہت مشكل اور پيچيده شرطوں كا تعين كيا ہے۔ حضور نے فرمايا: «مسلمانوں سے جرم كى سزا حتى المقدور ختم كر ديا كرو، اگر چهٹكارے كا كوئى پہلو نكلتا ہو تو مجرم كو آزاد كرو (شك كافائده دے كر) اگر كوئى امام سزا كو معاف كرنے ميں غلطى كرے تو يہ سزا دينے ميں غلطى كرنے سے بہتر ہے۔»
    يعنى كہ جہاں تك ہو سكے حد كو چهوٹے سے بہانہ يا شبہ سے دفع كر ديا كرو،سو اس حديث كے موافق فقہ كا ايك قاعده مقرر ہو گيا ہے كہ "الحدود تندرء بالشبهات" حد ذرا سے شبہ سے ساقط ہو جاتى ہے۔
    اسلام نے حدود كى تطبيق كى  زمہ دارى عام افراد يا جماعت پر نہيں بلكہ ملك اور اس ميدان سے منسلك خاص اداروں پر عائد كى ہے ،اسى لئے  انفرادى طور پر شرعى حدود كى تطبيق كرنے والا شخص شريعت الہى كے مخالف قرار پاتا ہے كيونكہ يہ انيك فرد كى نہيں بلكہ ايك سركارى   زمہ دارى ہے۔
 

Print

Please login or register to post comments.