"ہم انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں الازہر الشريف كے ساتھ تعاون کرنے میں بے حد دلچسپی رکھتے ہیں": قاہرہ میں جاپانی سفیر نے الازہر آبزرویٹری کی کوششوں کو سراہاتے ہوئے كہا
پير, 14 جون, 2021
  گزشتہ اتوار كو الازہر آبزرویٹری برائے انسداد انتہا پسندی نے قاہرہ میں جاپانی سفیر جناب "مساکا نو" کا استقبال كيا، جنہوں نے انتہا پسندانہ نظریات سے نمٹنے میں الازہر آبزرويٹرى كے اہم اور نماياں کردار کے بارے میں جاننے کے لئے...
مذہبى عبادت گاہوں كا تقدس اور احترام
پير, 7 جون, 2021
  مذہبی عبادت گاہوں پر حملے کے رجحان پر  روشنی ڈالنے کے لیے الازہر آبزرویٹری برائے انسداد انتہا پسندی (۱۲) زبانوں  میں نئی ویڈیو کلپس جاری کررہا ہے۔ الازہر_آبزرویٹری نے اس سے پہلے بھی اس نوعیت کے غیر انسانی  اور غیر...
موت کے کھیل!!
اتوار, 18 اپریل, 2021
    الازہر انٹر نیشنل سنٹر برائے الیکٹرانک فتوی  نے "ٹک ٹوک" ویڈیو ایپلی کیشن کے "نیلے رنگ کے اسکارف" یا "بلیک آؤٹ" چیلنج کے خطرے سے خبردار کیا ہے، جو اپنے صارفین کو دعوت دیتا ہے کہ  کمرے کو...
First2345791011Last

امام اکبر کی بوندستاج (جرمنی کی قومی اسمبلی ) سے عالمی تقریر 15 مارچ 2016ء

  • 17 مارچ 2016

بسم الله الرحمن الرحيم

جرمنی پارلیمنٹ کا ایک پیغام

جرمنی پارلیمنٹ کے صدر جناب پروفیسر نوربرٹ لامرت صاحب

آج کی اس مبارک محفل میں تشریف فرما معزز سامعین کرام 

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ

قبل اس کہ میں آپ حضرات سے ہم کلامی کا شرف حاصل کروں، میں آپ حضرات کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ حضرات نے مجھے یہ سنہری موقعہ عنایت فرمایا کہ میں آپ حضرات سے گفتگو کر سکوں اور آپ حضرات کے ذریعہ اس اسٹیج سے جرمنی عوام سے مخاطب ہو سکوں، میں آپ حضرات کا دل کی گہرایوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ سب کا بہت ممنون اور مشکور ہوں ۔

میں جرمن کی اس قومی اور تاریخی عمارت میں اپنی حاضری پر فرحت وانبساط کی کیفیت سے معمور ہوں، میں بتانا چاہونگا کہ اس قومی اور تاریخی عمارت کی درودیوار میں یوروپی تاریخ کے دھارے کو بدل دینے والے عالمی واقعات کی یادیں وابستہ ہیں اور اس کی فضاؤں میںاس کی صدائے بازگشت سرگرداں ہیں، اور یہاں کی پارلیمنٹ نے اپنی عوام کو سیاسی، اقتصادی اور سماجی جیسے تمام بحران سے آزاد کر کے ایک شاندار، بے مثال اور  دلکش ملک کا ایسا تحفہ پیش کیا ہے کہ جس کی طرف ایک نمونہ اور مثال کی حیثیت سے انگلیوں کے ذریعہ اشارہ کیا جاتا ہے، اور جہاں عدل وانصاف، مساوات وبرابری اور آزادی جیسے قدروں کو اختیار کر کے ترقی کے مراحل طے کئے جاتے ہیں ۔

اس مناسبت سے میں مشیرکار محترمہ جناب انجیلا میرکل کی خدمت میں سلام عرض کرتا ہوں، اور مشرق میں واقع جہنم نما زندگی اور ایک طرح کی سنگین کشمکش سے راہ فرار اختیار کرنے والے پناہ کے متلاشی مرد، عورت اور بچوں کے تئیں ان کے قابل قدر اور قابل تحسین انسانی موقف کو صد بار سراہتا ہوں، باوجودیکہ محترمہ موصوفہ چند غیر معمولی حالات سے دوچار ہیں لیکن محترمہ شجاعت وبہادری اور ہمت وحوصلہ کی پیکر بن کر اپنے قابل قدر انسانی موقف پر ثابت قدم ہیں، جسے تاریخ عنقریب نور کے حروف سے رقم کریگی، اور ازہر نے اپنے ایک بیان میں محترمہ موصوفہ کا اسلام اور مسلمانوں کے تئیں خیر سگالی کے جذبات پر ایک سپاسنامہ بھی پیش کیا، جب وہ اسلامو فوبیا کی مذمت کرنے والے برلن کے مظاہرے میں شریک ہوئیں تھیں اور جرمن کے سابق صدر کرستیان وولو کے مقولہ "اسلام جرمنى کا ایک جزء ہے"  اس کو ثابت بھی کر دیا ۔ 

 پارلیمنٹ میں موجود قوم وملت کے معزز اور محترم حضرات مجھے آپ اجازت دیں کہ میں آپ حضرات کے سامنے اپنے آپ کو ایک فرد مسلم کی حیثیت سے پیش کروں جسے اسلامی علوم میں تخصص حاصل ہے اور اس کو اسی طرح سمجھا جیسا کہ اللّٰہ تعالی نے لوگوں کے لئے ارادہ کیا تھا اور جیسا کہ اللّٰہ کے پیارے نبی محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ان تک پہنچایاتھا، کسی جماعت یا کسی سیاسی پارٹی سے میرا تعلق نہیں اور نا ہی زمانہ کے نظریات میں سے کسی نظریات کا میں پابند ہوں، اور ناہی اس کی کوشش کرتا ہوں خواہ اعتقادی طور پر ہو یا دعوتی طور پر ہو، میں تو صرف اور صرف مسلمان ہوں اور ساری انسانیت سے محبت کرتا ہوں، دینی

سماجی اجتماعی اور عالمی پیمانہ پر امن وسلامتی کے تئیں فکر مند ہوں اور سارے لوگوں کے لئے اس امن وامان کا متلاشی اور متمنی ہوں  خواہ ان کی قومیت، ان کی جنسیت، ان کا ملک،ان کا خاندان اور قبیلہ کتنا ہی مختلف کیوں نہ ہو، ان کا دین،ان کا عقیدہ اور مذہب کیسا ہی کیوں نہ ہو ۔ 

محترم حضرات !

میں آپ کے روبرو کوئی واعظ یا اسلام کی بول بولنے والے کی حیثیت سے نہیں حاضر ہوا ہوں بلکہ اس دین کے لئے آپ کی عدالت وانصاف کو مخاطب کرنے آیا ہوں جو دین اس بات کا مستحق ہے کہ بعض نا سمجھ نوجوانوں کی غلط تصرفات کی وجہ سے اس پر لگائے گئے تمام تہمتوں اور افتراپردازیوں سے اسے پاک کیا جائے، جن نوجوانوں نے اس دین کو کشت وخون، انسانی دشمنی اور تہذیب وتمدن کو نيست ونابود کرنے والے مذہب کی صورت میں پیش کیا ہے۔

  جیسا کہ آپ حضرات کو بخوبی معلوم ہے کہ یہ دین اسلام ، تمام آسمانی ادیان سے اس طرح مربوط ہے کہ اسے ان سے جدا نہیں کیا جا سکتا ہے، پس ہم مسلمانوں کا ایمان ہے کہ تورات ، انجیل اور قرآن کریم لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی کا سامان ہے، بعد میں نازل ہونے والی کتاب پہلے نازل ہونے والی کتاب کی تصدیق کرتی ہے اور قرآن پر ہمارا ایمان کامل ومکمل نہیں ہو سکتا جب تک کہ ہم دوسری آسمانی کتابوں پر ایمان نہ لے آئیں، اسی طرح محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر ہمارا ایمان قابل قبول نہیں ہو سکتا جب تک کہ ہم حضرت موسی حضرت عیسی اور ان سے قبل جتنے بھی انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام بھیجے گئے ہیں ان سب پر ایمان نہ لے آئین، اور ہم قرآن میں اللہ کا یہ فرمان پڑھتے ہیں  ﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾ (بقره: 26)  ترجمہ  ( بے شک جو لوگ مسلمان ہؤے اور جو لوگ یہودی ہؤےاور جو لوگ نصاری اور صائبین ہؤے، جو ایمان لایا ان میں سے اللہ پر اور روز قیامت پر اور نیک کام کئے تو ان کے لئے ان کے رب کے پاس اجر وثواب ہے اور ان پر کوئی خوف نہیں ہے اور نہ وہ غمگین ہونگے) ۔      

اور اسلام کے سلسلہ میں جو بات کہی جاتی ہے کہ وہ قتل وغارتگری اور تلوار کا دین ہے بے بنیاد بات ہے کیونکہ سیف یعنی تلوار کا لفظ قرآن کریم کے لفظوں میں سے نہیں ہے اور ناہی اس لفظ کا وجود قرآن شریف میں ملتا ہے خواہ ایک ہی بار کیوں نہ ہو، اور مسلمانوں کا ایمان ہے کہ اللّٰہ رب العزت نے حضرت محمد مصطفی e کو سارے جہاں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے نا کہ صرف مسلمانوں کے لئے ، بلکہ اللّٰہ رب العزت نے ان کو انسان، حیوان، جماد اور نبات سب کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے، قرآن کریم میں اللّٰہ رب العزت کا ارشاد ہے﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ﴾ترجمہ(ہم نے تم کو سارے جہاں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے)، اور خود اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنے بارے میں فرمایا ہے:«أيها الناس إنما أنا

رحمة مهداة» ترجمہ(میں رحمت اور ہدایت کا ذریعہ ہوں)، اور جو بھی اس نبی کی تعلیمات کو عام رحمت اور عالمی امن شانتی کے دائرہ سے خارج سمجھے گا تو وہ آپ کی شخصیت اور آپ کی تعلیمات سے ناواقف ہوگا ۔

اسلام کسی بھی غیر مسلم کو اسلام یا کسی اور مذہب کے انکار کے سبب ،قتل کو جائز قرار نہیں دیتا ہے، کیونکہ اللّٰہ رب العزت نے جیسے مسلمانوں کو پیدا فرمایا ہے بالکل ویسے ہی غیر مسلمانوں کو  پیدا فرمایا ہے اللّٰہ کا فرمان ہے ﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ فَمِنكُمْ كَافِرٌ وَمِنكُم مُّؤْمِنٌ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ﴾ (تغابن: 2) ترجمہ "اسی نے تم سب کو پیدا کیا ہے پس تم میں کوئی مؤمن ہے اور کوئی کافر ہے اور اللہ رب العزت دیکھتا ہے جو تم کرتے ہو"، اللّٰہ رب العزت نے غیر مسلمانوں کو ان کے قتل اور نسل کشی کے لئے پیدا نہیں فرمایا ہے، یہ ایسا مکروہ فعل ہے کہ کہ کسی انسانی حکمت کے مناسب نہیں ہے چہ جائکہ حکمت الہیہ کے موزوں اور مناسب ہو، اور قرآنی نص صریح کے ذریعہ عقیدہ اور  رائے کی آزادی              کا حق سب کو حاصل ہے، اللّٰہ رب العزت کا ارشاد ہے ﴿فَمَن شَاء فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاء فَلْيَكْفُرْ﴾ (كہف: 29) ترجمہ (پس جو چاہے قبول کرے اور جو چاہے انکار کرے)، اللّٰہ رب العزت کا دوسری جگہ فرمان ہے: ﴿لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنْ الغَيِّ﴾(بقره: 256) ترجمہ (دین میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے ہدایت گمراہی سے واضح ہو چکی ہے)، اور اس دستور میں بھی مکتوب ہے جسے اللّٰہ کے نبی نے یمن کی طرف بھیجا تھا، ﴿مَنْ كَرِهَ الْإِسْلَامَ مِنْ يَهُودِيٍّ وَنَصْرَانِيٍّ، فَإِنَّهُ لَا يُحَوَّلُ عَنْ دِينِهِ﴾،ترجمہ (یھود اور نصاری میں سے جس نے بھی اسلام کو ناپسند کیا اسے اس کے مذہب سے پھیرا نہیں جائیگا)، اور تاریخ نے بھی مسلمانوں کے دور حکومت میں کسی ایسے واقعہ کا ذکر نہیں کیا جس میں مسلم حکمرانوں نے اہل وطن کو دو ؛یعنی اسلام میں داخل ہونے یا تلوار میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کا موقع دیا ہو بلکہ وہ تو اہل وطن کو اپنے دین، عادات اور رسم ورواج پر برقرار رہنے کا مکمل حق دیتے تھے، ان کے ساتھ مل جل کر اور پڑوس میں زندگی گزارنے میں کوئی مضائقہ اور کسی قسم کی کوئی تنگی محسوس نہیں کرتےـ

اسلام میں جہاد ، قتل وقتال اور کشت وخون پر منحصر نہیں ہے جو کہ دشمنی کا رد ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ اسلام میں جہاد اکبر نفس، شیطان اور شر اور برائی کے احساسات اور جذبات سے جہاد کرنا ہے اور جہاد کے شرعی مفہوم میں ہر وہ جدوجہد اور کوشش وکاوش داخل ہے جو لوگوں کے مفاد میں کئے گئے ہوں، ان میں سر فہرست وہ کوششیں ہیں جو فقر وفاقہ کو دور کرنے، جہالت کو ختم کرنے،  بیماری کے علاج، محتاج کی مدد، فقراء اور مساکین کی خدمت اور ان کے تعاون کے لئے کی گئیں ہوں، اسلام نے مسلمانوں کو ہمت افزائی کے ساتھ مسلح جہاد کرنے کا حکم صرف اور صرف ظلم وذیادتی اور دشمنوں کی طرف سے کئے جانے والے یلغار اور یورش کے دفاع کی شکل میں دیا ہے، اس صورت میں دفاع کے لئے قتل وقتال واجب ہو جاتا ہے،

اور اس قسم کے جہاد کو تمام مذاہب وادیان اور تہذیب وتمدن نے جائز قرار  دیا ہے، اور یہ کہنا  صحیح نہیں ہے بلکہ بہت ہی غلط ہے کہ اسلام میں جہاد کا مطلب غیر مسلموں کے ساتھ جنگ وجدال کرنے اور ان کے خاتمہ کے لئے اسلحہ اٹھانے کے مرادف ہے، اور بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے آج اسلام اور اہل اسلام کو بدنام کرنے کے لئے قرآن اور حدیث کے نصوص کے غلط فہم اور سمجھ کو فروغ دیا جا رہا ہے۔

اور شریعت اسلامیہ کی بنیاد عدل وانصاف، مساوات، آزادی، انسانی عزت وشرافت اور وقار پر قائم ہے، اور اس دین اسلام کے پیغمبر نے لوگوں کے مابین مساوات اور برابری کی صدا اس وقت لگائی تھی کہ انسانی عقل اس اصول کی حقیقت کو سمجھنے یا اس کے تصور سے قاصر تھی کیونکہ یہ  انسانی عقل اس وقت طبقہ واریت، غلام اور آقا کے سماج اور سوسائٹی کے علاوہ کسی سماج اور سوسائٹی سے آشنا نہیں تھی، اس کے باوجود اللّٰہ کے پیارے نبی نے قیامت تک باقی رہنے والی صدا لگائی کہ«النَّاسُ سَوَاسِيَةٌ كَأَسْنَانِ الْمِشْطِ»ترجمہ"انسان کنگھی کے دندانوں کی طرح یکساں ہیں"، اور ابھی اللّٰہ کے پیارے نبی اس دار فانی سے کوچ کئے دس سال  ہؤے تھے کہ دوسرے خلیفہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اپنے عہد خلافت میں ایک مسلم والی کو متنبہ کرتے ہؤے فرماتے ہیں کہ"متى استعبدتم الناس وقد ولدتهم أمهاتهم أحرارًا" ترجمہ(تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنا لیا جبکہ ان کی ماؤں نے ان کو آزاد پیدا کیا ہے)، اور میرا اعتقاد ہے کہ (محترم سامعین حضرات ) یہاں یورپ میں بہت سے ایسے قوانین اور اصول وضوابط ہیں جو اس میدان میں اسلامی قوانین سے روح اور نص کے اعتبار سے مطابقت رکھتے ہیں، خاص طور پر وہ قوانین اور اصول جو دینی، نسلی اور خاندانی نسبت سے صرف نظر،انسان کی عزت وشرافت کی حفاظت کرتے ہیں، ان کو ان کی آزادی عطا کرتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ عدل وانصاف اور مساوات وبرابری کا مکمل حق دیتے ہیں۔

اب  میں   اپنے دینی اور اسلامی ان مسلمان بھائیوں سے کہنا چاہتا ہوں جو یوروپ میں سکون پذیر ہیں اور یوروپی سماج اور سوسائٹی کے جزء لا یتجزی بن چکے ہیں، میں ان سے کہنا چاہونگا کہ وہ جس سماج اور سوسائٹی میں ہیں اس کے اعلی قدروں کی قدردانی کریں، اس کا پاس ولحاظ رکھیں اور اس سے استفادہ کرتے ہؤے دین، مذہب وملت اور خاندان وقبیلہ سے صرف نظر اسلام اور  دوسروں کا احترام کرنے والی، نرمی اور سہولت پر مبنی اس کی تعلیمات کو پیش کریں، اور ہمیشہ اللّٰہ رب العزت کے اس فرمان کو یاد کریں، ﴿لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ﴾ (سورة رقم60، الآية: 8}ترجمہ (اللہ تم کو ان لوگوں سے نہیں روکتا جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کیا، اور تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا کہ تم ان سے بھلائی کرو اور تم ان کے ساتھ انصاف کرو، بے شک اللہ انصاف کرنے والے کو پسند کرتا ہے)، اور میری دیرینہ تمنہ ہے کہ یورپ میں زندگی گزارنے والا  مسلمان اس

آیت کو خوبصورت تختی پر لکھوائے اور اپنے مکتبہ یا دکان میں آویزاں کرے یا اپنے موبائل کے اسکرین پر محفوظ کرے اور ہر لمحہ غور وفکر کرے کہ وہ نیکی جو والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور ادب اختیار کرنے کا اعلی درجہ ہے وہی مطلوب ہے اس شخص کے ساتھ بھی جو ہمارے ساتھ امن وآشتی کا خوگر ہے اور کشت وخوں کا پیکر نہیں ہے، اور عدل وانصاف، وفاداری اور امانتداری اپنے دینی وایمانی بھائی اور اپنے انسانی بھائی دونوں کے ساتھ یکساں طور پر برتنا یہ مسلمان کا اخلاق ہے۔

اور جہاں تک عورتوں کی بات ہے وہ اسلامی شریعت میں حقوق اور ذمہ داریوں میں مردوں کے شریک ہیں اللّٰہ کے نبی محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تعبیر میں کہ {النِّسَاءُ شَقَائِقُ الرِّجَالِ}، ترجمہ"عورتیں مردوں کے مانند ہیں" اور آپ حضرات یہ نہ گمان کریں کہ مشرقی عورتیں جس حاشیہ کی حیثیت سے دوچار ہیں وہ اسلامی تعلیم کی وجہ سے ہے، یہ گمان بالکل باطل اور بے بنیاد ہے، بلکہ آج مشرقی عورتیں جس پریشانی سے دوچار ہیں وہ عورتوں سے متعلق اسلامی تعلیمات کی مخالفت کی وجہ سے ہے، قدیم روایات اور بوسیدہ رسم ورواج کو جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے عورتوں سے متعلق شریعت اسلامیہ میں موجود ارشادات وفرمودات پر فوقیت دینے کی وجہ سے ہے، اور اسلامی سماج نے اپنے بہت سے ابداعی صلاحیت کھو دئے جب ہم نے عورتوں کے کردار کو حاشیہ میں رکھا اور اور مشرقی سماج اور سوسائٹی میں ان کو اثر انداز ہونے سے دور رکھا ۔

لوگوں کے مابین تعدد اور اختلاف فطری چیز ہے جسے قرآن کریم نے بھی ثابت کیا ہے اور اسی فطرت پر اسلام میں بین الاقوامی تعلقات کے قانون کو مرتب کیا ہے جسے ہم تعارف کے نام سے جانتے ہیں، جس کا لازمی مفہوم یہ ہے کہ جس سے ہمارا اتفاق ہے اور جس سے ہمارا اختلاف ہے سب کے ساتھ ہم حوار اور گفتگو کے اصول کو اختیار کریں، اور  آج اس موجودہ زمانہ میں سنگین اور مہلک بحران اور حالات سے نکلنے کے لئے اس کی اشد ضرورت ہے، اور یہی سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ مسلمانوں کا یہ تصور کہ سارے کہ سارے لوگ، ساری امتیں اور ساری قومیں ایک دین اور ایک ثقافت میں ہوں مشکل تھا کیونکہ اللّٰہ رب العزت کی مرضی تھی کہ لوگ مختلف ہوں حتی کہ انگلیوں کے نشان میں اختلاف ہو، قرآن میں اللّٰہ کا فرمان ہے(ولو شاء ربك لجعل الناس أمة واحدة ولا يزالون مختلفين)،"اگر آپ کا رب چاہتا تو لوگوں کو ایک امت بنا دیتا اور وہ مختلف نھیں ہوتے"، اور قرآن پر ایمان لانے  والے  کو کوئی شک نہیں ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت وقوت اور کوئی تہذیب لوگوں کے اختلاف میں اللّٰہ جل جلالہ کی مشیت کو بدل سکے، اور ان نظریات میں  غور کریں جو لوگوں کو ایک مذہب یا ایک مرکزی تہذیب پر جمع کرنے کا خواب دیکھ رہی ہیں گویا کہ یہ بیداری کی حالت میں خواب دیکھنے یا  بچوں کے بے فائدہ خواب دیکھنے کے مرادف ہوگا ۔

اسى  لئے يہ بہت فطرى اور منطقى سى بات تهى كہ اسلام اور مسلمان يہوديوں اور عيسائيوں سے خوب گهل مل جائے اور اُن كے ساتھ اسيے پُر امن طريقہ سے زندگى گزاريں كہ مسلمان كا عيسائى يا يہودى خاتون كے ساتھ شادى كرنا جائز قرار

دے ديا جائے اور اُس كے مسلمان شوہر كے لئے يہ ہرگز جائز نہيں كہ وه اُس كى عبادت يا گرجا گهر يا عبادت گاه جانے ميں ركاوٹ بنے۔

 محترم حضرات! آپ - يقينًا- ميرى باتوں پر اعتراض كر رہے ہوں گے اور آپس ميں كہہ رہے ہوں گے كہ اگر اسلام اور مسلمانوں كى صورت اتنى درخشان اور دلشكن ہے تو اس كے دامن سے داعش وغيره جيسے دہشت گرد گروه كيسے ظاہر ہوئے، جو الله اور اسلام وشريعت كے نام سے قتل وغارت كرتے ہيں اور لوگوں كو ذبح كرتے ہيں كيا يہ غير انسانى اور خوفناك افعال دوسروں كے ہاں اسلام كى صورت كو نہيں بگاڑتے؟؟

 اس سوال كا جواب ميں مختصر طور پر ديتا ہوں: اگر ہر دين كو اُس كے چند پيروكاروں كے افعال كے ترازو ميں تولا جائے تو كوئى بهى دين تشدد اور دہشت گردى سے خالى نہں كہلايا جا سكے گا، وه دہشت گرد جو اپنے جرم مذہب كے نام سے كرتے ہيں اپنے دين كى نمائندگى نہيں بلكہ –فى الواقع- وه اس امانت ميں خيانت كرتے ہيں جبكہ اُن كا دعوى يہ ہوتا ہے كہ وه اُس كى راه ميں مر رہے اور مار رہے ہيں۔

 مذاہب دراصل اُس كے الہى تعليمات اور اُس كے نبى كے افعال اور اُس كے تبليغ كے طريقۂ كار سے واضح ہوتے ہيں، يہى حال حضرت محمدe، حضرت عيسىu اور حضرت موسىu اور باقى تمام آسمانى پيغامات كے ساتھ ہے۔

 دہشت گردى كى اس آفت كى مذمت تمام عالم اسلامى كى قوموں، حكومتوں، ازہر شريف، كليساؤں، مفكرين اور علماء نے كى ، ہم سب مسلمانوں اور غير مسلمانوں پر فرض ہے كہ ہم دہشت گردى كى تمام صورتوں كا سامنا كريں اور اُس كونيست ونابود كرنے كے لئے متحد ہوں۔

 دہشت گردى اپنے شكاريوں كے درميان تفرقہ نہيں كرتى، اُس كے افكار وخيالات كے مخالف ہر شخص اس آفت كا شكار بن سكتا ہے۔ اگر كوئى بهى شخص ابهى تك يہ سمجهتا ہے كہ اسلام دہشت گردى كے ان جرائم كى تاييد كرتا ہے تو اس كو يہ ياد ركهنا چاہيے كہ مسلمان ہى اس دہشت گردى كى قيمت اپنے خون، جسم كے ٹكڑوں، اپنى عورتوں اور بچوں كى لاشوں سے چكاتے ہيں يعنى وه غير مسلمانوں كےمقابلے ميں اس كى دگنى  قيمت ادا كرتے ہيں۔ يہ كيسے ہو سكتا ہے كہ ان وحشى افعال كو اسلام يا مسلمانوں سے منسوب كيا جائے؟؟

آپ ميرى اس بات سے  اتفاق كرتے ہوں گے كہ عالم مشرق اور مغرب كے ہاں اس بين الاقوامى آفت كے سامنے كےلئے صرف ايك حل ہے اور وه ہے علمائے دين كے مابين امن وسلامتى قائم كرنا- ميں دور حاضر كے لاہوتى (الہى مسائل اور صفات ميں علم ركهنے والے) "ہانس  كنج" كے شعار پر مكمل يقين ركهتا ہوں جس ميں انہوں نے كہا: "قوموں كے درميان امن وسلامتى اس وقت تك قائم نہيں ہو سكتى جب تك مذاہب كے درميان امن وسلامتى قائم نہ ہو"- يہى شعار لندن ميں 1936ء نے اُس وقت كے شيخ ازہر نے بهى بلند كيا تها جس ميں انہوں نے مشرقى اور مغربى تہذيب كے درميان مفاہمت كى دعوت دى تهى۔ 

خواتين وحضرات!

  مجهے يہ كہنے كى اجازت ديں كہ جب ميں آپ كے معاشروں ميں قائم ہونے والے مساوات، ڈيمكراسى يا انسانى حقوق كى حفاظت جيسى قدروں كى تعريف كرتا ہوں تو مجھ سے بعض لوگ پوچهتے ہيں كہ: "اگر يورپين معاشروں  كے بارے ميں آپ كى يہ باتيں مانى جائيں تو يورپ كا اسلامى ممالك كے ساتھ معاملہ اور موقف اتنا مختلف كيوں ہے! مشرق عربى اور اسلامى ، عالم مغرب اور يورپ كے بارے ميں صرف يہى جانتے ہيں كہ وه صرف اپنے ہى بهلائى اور مصلحت كو ديكهتے ہيں اور دوسرے قوموں كى بہترى اُن كے لئے كوئى اہميت نہيں ركهتى اور اُس سلسلے ميں وه عراق اور ليبيا ميں ہونے والے واقعات كى مثال ديتے ہيں۔ آپ كے لئے ميرا پيغام يا آپ سے ميرى اُميد يہ ہے كہ آپ اس منفى نقطۂ نظر كو بدل سكيں اور ہم دنيا ميں امن وسلامتى كى ترسيخ پر مل كر كام كر سكيں۔

خواتين وحضرات!

 ہم جس ڈيمكراسى كے بارے ميں سوچ رہے ہيں جس كے لہرے ہوئے جهنڈوں كو ہم اپنے عربى اور اسلامى ممالك ميں ديكهنے كى تمنا ركهتے ہيں، جنگوں يا تہذيبوں كے درميان تصادم، تخليقى افراتفرى، خونريزى يا ہتهيار كے استعمال سے ہرگز نہں ہو گى، ا سكا واحد حل ہمارے اور آپ كے درميان تہذيبى تبادلہ، متوازن مكالمہ اور تعليم وصناعت كے پروگراموں كے تبادلہ ہے۔

 ازہر شريف ہميشہ سے اپنے خطاب، طريقۂ كار اور نصابوں كى تجديد كا اہتمام كرتا ہے ، اس سلسلے ميں ازہر كى كوششں زياده بڑھ گئى  ہيں- آج علمائے ازہر دنيا كے مختلف ملكوں ميں ان افكار وخيالات كى تصحيح كرنے ميں مصروف ہيں جو دين سے غلط افكار كو منسوب كرتى ہے، فتنے كى آگ كو بهڑ كاتى ہے، وطنوں كو برباد كرتى ہے،  اور خونريرزى كو حلال قرار ديتى ہے۔ ازہر شريف اور مسلم علما كونسل دنيا بهر ميں اسلام كے متعلق غلط افكار كى تصحيح اور نوجوانوں كو متشدد خيالات سے محفوظ ركهنے كے لئے كاروان امن بهيجتى آ رہى ہے اس كے علاوه ازہڑ آبزرويٹرى جس ميں مختلف زبانوں كے شعبے ہيں اس سلسلے ميں بہت محنت كر رہى ہے۔

 دسمبر 2014ء ميں ازہر شريف نے ايك كانفرنس كا انعقاد كيا جس ميں مسلم سنّى اور شيعى علما، مشرقى اور مغربى چرچز كے نمائندے اور عراق ميں ايزيديوں كے نمائندوں كو دعوت دى  گئى ، كانفرنس كے اختتامى بيان ميں تمام مسلحہ اور دہشت گرد فرقوں كى مذمت كى گئى اور يہ اعلان كيا گيا ہے مشرق كے مسلمان اور عيسائى صديوں سے ايك دوسرے كے ساتھ رہتے آ رہے ہيں اسى لئے ان كا حق ہے كہ وه ايسے ملك ميں رہيں جس ميں عدل ومساوات اور دوسروں كا احترام ہو اور يہ كہ دين كے نام پر عيسائيوں يا اُن كےعلاوه كسى پر بهى حملہ ، اسلام كى تعاليم كے خلاف ہے اور اُن كو زبردستى سے ہجرت كرانا دراصل ايك جرم ہے جس كى ہم سب مذمت كرتے ہيں۔

 آج بهى ازہر شريف دہشت گردى كے ان تمام وحشى اعمال كى مذمت كرتا ہے جس كا سب سے نيا شكار كوٹ ڈيفوار تها ہم جرمنى قوم كو بهى آج كے المناك حادثہ پر تعز يت پيش كرتے ہيں۔

خواتين وحضرات!

 آج يورپ ميں تقريبًا (20) ملين مسلمان رہتے ہيں، جس ميں سے بيشتر يورپ ميں پيدا ہوئے ہيں اور يورپين بن گئےہيں ، ميں كہتا ہوں كہ: اُن كے اور اصل يورپين شہريوں كے درميان مكمل مساوات ہونى ضرورى ہے۔

 اُن كو يہ محسوس نہ ہونے ديں كہ وه مہاجر ہيں اور معاشرے لئے كوئى اہم حيثيت نہيں ركهتے، اس طريقہ سے وه اپنے معاشرے سے وفادار نہيں ہوں گے كيونكہ يہى وفادارى ان كے لئے دہشت گردى اور تشدد كے خلاف  ڈهال كى حيثييت ركهے گى۔

 ميں ايك دفعہ پهر كہتا ہوں كہ ازہر شريف آپ كى اور يورپين يونين كى طرف اپنا ہاتھ بڑهاتا ہے- انسانى بهائى چارے، مشرق اور مغرب كے درميان اور ازہر شريف اور يوپين مسلمانوں كے درميان تعلقات كى تعزيز اور تقويت كے لئے اپنا ہاتھ بڑهاتا ہوں۔

 اس پارليمنٹ كے سامنے اپنى بات كا اختتام كرتے ہوئے ميں يورپين مسلمانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے كہتا ہوں كہ وه اسلام اور اُس كے پاك نبى كى- جوكہ صرف مسلمانوں كے لئے نہيں بلكہ تمام جہانوں كے لئے رحمت بن كر نازل ہوئے تهے- كى صحيح نمائندگى كريں، ازہر شريف آپ كوايسے نصاب اور كتابيں دينے كے لئے تيار  ہے جو آپ كو اپنے دين  كو صحيح طريقہ سے سمجهنے ميں اور متشدد افكار سے بچنے ميں مدد دے گى- تاكہ آپ اپنے دين كى- جو كہ ہر زمان ومكان كے لئے مناسب ہےكى صحيح نمائندگى كريں- ياد ركهيں كہ اسلام كے يورپ كى ثقافت ا   ور تہذيب پر گہرے اثرات ہيں- جرمنى كے اديب "جوتہ" اور اسے پہلے ناقد اور ڈرامہ نگار "لينج" كى تحريريں ا سكا ثبوت پيش كرتى ہيں۔

بات لمبى ہونے پرميں آپ سے معذرت چاہتا ہوں ليكن ميں اپنے دل ميں ايك اُميد لے كر آپ كے پاس آيا ہوں- يہ اميد ايك بلين اور سات سو ملين مسلمانوں كے دلوں ميں بهى ہے اور وه ہے پرامن بقائے باہمى اور مشرق ومغرب كے مابين ثقافتى مكالمے اور تعاون كى اُميد- اس اميد كو يہى قديم اور عظيم  پارلمنٹ پورى كر  سكتا ہے جو كہ ايسى قوم كى نمائندگى كرتا ہے جو آزادى اور ڈيمكر اسى كى قدر كرتا ہے اور جس كى وجہ سے ہمارے دلوں ميں جرمنى كے لئے ايك خاص قسم كے جذبات ہيں۔

والسلام عليكم ورحمۃ الله وبركاتہ

احمد الطيب

شيخ الازہر

Print
Tags:

Please login or register to post comments.

روزه اور قرآن
  رمضان  كے رروزے ركھنا، اسلام كے پانچ  بنيادى   اركان ميں سے ايك ركن ہے،  يہ  ہر مسلمان بالغ ،عاقل ، صحت...
اتوار, 24 اپریل, 2022
حجاب اسلام كا بنيادى حصہ
جمعه, 25 مارچ, 2022
اولاد کی صحیح تعلیم
اتوار, 6 فروری, 2022
اسلام ميں حقوقٍ نسواں
اتوار, 6 فروری, 2022
12345678910Last

دہشت گردى كے خاتمے ميں ذرائع ابلاغ كا كردار‏
                   دہشت گردى اس زيادتى  كا  نام  ہے جو  افراد يا ...
جمعه, 22 فروری, 2019
اسلام ميں مساوات
جمعرات, 21 فروری, 2019
دہشت گردى ايك الميہ
پير, 11 فروری, 2019
12345678910Last