كافروں كا خون حلال ہے

  • 26 ستمبر 2017
كافروں كا خون حلال ہے

متشدد گروہوں كا كہنا ہے  كہ " اسلام عقلى اصولوں اور حقيقى عدل وانصاف كا دين ہے ان اصولوں ميں سے ايك يہ ہے كہ  ہم پر اس وقت تك لڑنا فرض ہے جب تك  دنيا ميں موجود تمام انسان اسلام نہ لے آئيں۔ اس اصول كے بنا پر ہر اس غير مسلمان كا خون حرام ہے جس كے ساتھ مسلمانوں نے معاہده كيا  ہو اور ہر اس غير مسلمان كو قتل كرنا جائز ہے جس كے ساتھ كوئى شرعى معاہده نہ ہو۔ بخارى اور مسلم سے روايت ہے كہ رسول الله نے فرمايا: «مجھے لوگوں سے لڑنے کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ وہ "لا الہ الا اللہ" کا اقرار کریں،مجھ پر ایمان لائیں،میری لائی ہوئی تعلیمات پر ایمان لائیں اگر وہ ایسا کریں تو انہوں نے اپنے خون (یعنی جانیں) اور اپنے مال مجھ سے بچا لیے مگر حق کے بدلے اور ان کے اعمال کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔»"  

        ان كے اس غلط فكر كى تصحيح لفظ "لوگوں" كى تصحيح سے ہو گى كيونكہ حديث ميں يہ لفظ "لوگ" "عام" ہے ليكن اس سے مراد "خاص" يعنى ايك خاص اور محدد گروه ہے جيسے كہ قرآن مجيد ميں  فرمان الہى  ہے:

  • (اور لوگوں میں حج  كا اعلان كردے كہ تيرے پاس پا پياده اور پتلے دبلے اونٹوں  پر دور دراز راستوں سے آئيں ) (سورۂ حج: 27)  تو آيا تمام "لوگ" مسلمان ہيں كہ  ان كو حج پر جانے كى دعوت دى جائے  !!!؟  دراصل  يہاں  "لوگوں" سے مراد صرف "مسلمان" ہيں۔
  • (اور ماں کی گود میں اور بڑی عمر کا ہو کر (دونوں حالتوں میں) لوگوں سے (یکساں) گفتگو کرے گا اور نیکو کاروں میں ہوگا) (سورۂ آل عمران: 48) تو كيا حضرت عيسىؑ نے تمام "لوگوں" سے بات كريں گے ؟ نہيں،  يہ خطاب صرف بنى اسرائيل كے لئے ہے ، اسى لئے  يہ ہرگز نہں كہا جا سكتا كہ اسلام لانے تك تمام غير مسلمانوں كو قتل كرنا اسلام كے اصولوں ميں سے ہے كيونكہ  جس حديث كو وه دليل كے طور پر استعمال كرتے ہيں صرف مشركين مكہ كے بارے ميں تهى جس نے اُن سے دشمنى موه لى تهى۔ اور ايك خاص زمانہ تك محدود ہے ، الله تعالى نے ہر انسان كى جان كى حفاظت كرنے كا حكم ديا ہے  اور اس كى جان لينے كا حق صرف اس كے خالق كو ہے .اسلام امن وسلامتى كا دين ہے اور بغير تہمت يا الزام كے كسى كو  خود جاكر قتل كر دينا خواه وه مسلمان ہو يا غير مسلمان اسلام كے بنيادى اصولوں كے  خلاف ہے.

 

Print

Please login or register to post comments.