ہم جانتے ہيں كہ اسلام صرف ايك مذہب نہيں بلكہ ايك مكمل ضابطہ حيات ہے۔ يه احترام انسانيت اور انسانى حقوق كا علم بردار ہے۔اس نے حقوق ِانسان كا ايسا جامع تصور عطا كيا جس ميں حقوق وفرائض ميں باہمى توازن پايا جاتا ہے۔
عام طور پر "حقوق" سے مراد کسی چیز پر اخلاقی یا قانونی استحقاق ہونا ہے۔ قانون کے مطابق ، حقوق ان افراد کے معقول دعوے کے طور پر سمجھے جاتے ہیں جنھیں معاشرے نے قبول کر كہ قانون کے ذریعہ منظور کیا ہے۔ یہ بنیادی حقوق یا انسانی حقوق ہوسکتے ہیں۔ وہ حقوق جو کسی ملک کے شہریوں کی زندگی کے لئے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں وہ" بنیادی حقوق" کے طور پر جانے جاتے ہيں۔
بنیادی حقوق کسی بهى ملک کے شہریوں کے بنیادی حقوق ہیں جو عدالت عظمیٰ سے منظور شدہ اور معاشرے کے ذریعہ تسلیم شدہ ہیں۔ یہ آئین میں منسلک ہیں اور قانون کی عدالت میں نافذ بهى ہیں ، اس معنی میں کہ اگر کسی بھی طرح سے حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو فرد اپنے حق کے تحفظ کے لئے عدالت میں جاسکتا ہے ، اسی طرح وہ بنیادی حقوق کے طور پر جانا جاتا ہے۔
بنیادی حقوق تمام لوگوں پر "مساوی" طور پر لاگو ہوتے ہیں ، خواہ ان کی ذات ، مذہب ، صنف ، نسل ، اصلیت وغیرہ سے قطع نظر اس سے شہری آزادیاں یقینی بنتی ہیں ، تاکہ ملک کے تمام شہری اپنی زندگی کو اپنی زندگی گزار سکیں۔
دوسری طرف ، انسانی حقوق سے مراد وہ حقوق ہیں جن کا تعلق تمام انسانوں سے ہے چاہے وہ اپنی قومیت ، نسل ، ذات ، نسل ، جنس ، وغیرہ سے قطع نظر ہوں۔اسلام نے انسان کو جو بنیادی حقوق دیے ہیں ان میں سے ایک آزادی رائے ہے، لہٰذا کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ دوسرے کا حق چھین لے، یا اسے کسی کام پر مجبور کرے۔اسلام میں ایک اور بنیادی حق عقیدہ کی آزادی ہے۔
"عقیدہ کی آزادی" کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کو کسی اعتقاد کو اپنانے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہئے۔ اور کسی اعتقاد کی وجہ سے اسے نقصان نہیں پہنچایا جانا چاہئے جس پر وہ یقین رکھتا ہے۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ : "لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ" [البقرة: 256] .(دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے ۔ ہدایت کا راستہ گمراہی سے ممتاز ہو کر واضح ہو چکا ۔ اس کے بعد جو شخص طاغوت کا انکار کرکے اﷲ پر ایمان لے آئے گا، اس نے ایک مضبوط کنڈا تھام لیا جس کے ٹوٹنے کا کوئی امکان نہیں ۔ اوراﷲ خوب سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔)
عقیدہ کی آزادی اہم ترين انسانی حقوق ميں سے ايك ہے جس کا اسلام نے اقرار کیا ہے ، اور قرآن کریم کی بہت سی اور مختلف نصوص کسی شخص کے اس عقیدے کو قبول کرنے کے حق کی تصدیق کرتی ہیں جس میں اس کا دل مطمئن ہو، کیونکہ اللہ تعالٰی نےانسان کو ایمان اور کفر کے درمیان بھی انتخاب کرنے کی آزادی دے رکھی ہے۔ : "فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ" [الكهف: 29] (اب جو چاہے، ایمان لے آئے، اور جو چاہے کفر اِختیار کرے۔) اور خدا تعالی اپنے رسول ﷺ کو بھی یہی ہدایت دیتے ہیں کہ جب حق اور بھلائی کا راستہ واضح ہو جائے تو عقیدہ کا انتخاب کرنے کی آزادی کو اس شخص پر چھوڑ دیا جائے اور وہ فرماتے ہیں کہ : "أَفَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ" [يونس: 99] (پھر کیا تم لوگوں پر زبردستی کرو گے تاکہ وہ سب مومن بن جائیں۔)
اس بنیاد پر خواتین کو حجاب نہ پہننے سے منع کرنا اسلامی قوانین کی خلاف ورزی تصور کیا جاتا ہے۔ اسلام میں کسی قسم کا جبر کرنے کی تلقین نہیں کی گئی ہے۔ اس لیے اسلامی احکامات کسی پر زبردستی لاگو نہیں کیے جا سکتے۔اس لئے کسی خاتون کو حجاب اترنے پر مجبور کرنا قطعاً درست نہیں اور یہ انسانی آزادی کے صریحاً خلاف ہے۔ اگر حجاب اتنا ہی برا لگتا ہے تو گرجا گھروں کی ننز کے حجاب اوڑھنے پر پابندی کیوں نہیں لگا دیتے اور یہ امتیاز صرف مسلمان خواتین کے ساتھ کیوں ہے؟
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے كہ گزشتہ ماہ کرناٹک کی حکومت نے ریاست میں تمام سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے پر پابندی عائد کردی تھی جسے مسلمان طالبات کی طرف سے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔گذشتہ روز کرناٹک ہائی کورٹ نے تعلیمی اداروں میں لڑکیوں کے حجاب پہنے پر پابندی برقرار رکھنے کا حکم جاری کیا تھا۔ فیصلےمیں کہا گیا تھا کہ حجاب پہننا اسلامی عقیدے کا لازمی مذہبی عمل نہیں ہے۔
اسلام میں حجاب فرض ہے اور معاشرے کو اصلاح کی راہ پر گامزن رکھنے کے لیے اسلامی قانون کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن میں اللہ نے پردہ کرنے کا حکم دیا ہے اور حکمِ خدا بجا لانا فرض ہوتا ہے، خواتین کے لیے اللہ کا حکم ہے کہ وہ اپنے سروں کو ڈھانپ کر رکھیں جس سے واضح ہے کہ انہیں اپنے جسم اور سروں کو ڈھانپ کر رکھنا چاہیے۔ اس کے باعث موجودہ زمانے میں بہت سی برائیوں سے بچنا ممکن ہو جائے گا۔ حجاب پاکیزگی اور اخلاقیات کی علامت ہے اور اس کا ثبوت دوسرے مذاہب مثلاً عیسائیت میں بھی ملتا ہے۔ حجاب امہات المومنین کی سنت ہے اس لئے اس کا اوڑھنا بہت افضل ہے لیکن اسلام نے ظاہری عبادات کے علاوہ باطنی عبادات جیسا کہ تقویٰ پر بھی زور دیا ہے اس لئے صرف پہننا ہی افضل نہیں اس کی پاسداری بھی ضروری ہے۔ یہ سادگی کی علامت ہے اور اس کی وجہ سے عورتوں کو کبھی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے میں کوئی دشواری نہیں پیش آئی۔