اسلام دین رحمت ہے،اس کا دامن محبت ساری انسانیت کو محیط ہے، اسلام نے اپنے پیروکاروں کو سخت تاکید کی ہے کہ وہ دیگر اقوام اور اہل مذاہب کے ساتھ مساوات، ہمدردی، غمخواری ورواداری کا معاملہ کریں اوراسلامی نظام حکومت میں ان کے ساتھ کسی طرح کی زیادتی، بھیدبھاؤ اور امتیاز کا معاملہ نہ کیا جائے، ان کی جان ومال عزت وآبرو، اموال اور جائیداد اورانسانی حقوق کی حفاظت کی جائے۔ ارشاد ربانی ہے:
”لا ینہٰکم عن الذین لم یُقاتلوکم فی الدین ولم یُخرجوکم من دیارکم ان تبرّ و ہُم وتُقسطوا اِلیہِم، ان اللّٰہ یُحبُّ المقسطین“
(اللہ تم کو منع نہیں کرتا ان لوگوں سے جو لڑے نہیں دین کے سلسلے میں اور نکالا نہیں تم کو تمہارے گھروں سے کہ ان کے ساتھ کرو بھلائی اور انصاف کا سلوک، بیشک اللہ چاہتا ہے انصاف والوں کو) ۔
اسلام اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ بے ضرر کافروں سے بغض وعداوت رکھی جائے، یہ فعل اسلام کی نظر میں غیرمطلوب اور انتہائی ناپسندیدہ ہے،اسلام نے کفارِ مکہ، یہودیوں اور عیسائیوں کے علاوہ منافقوں کے ساتھ بھی کھل کر حسن سلوک کی ہدایت دی ہے، اس نے جہاں رشتہ داروں، قرابت داروں کے حقوق متعین کیے ہیں، وہیں قیدیوں، عام انسانوں اور غیرمسلم رعایا(ذمیوں) کے حقوق کی بھی وضاحت کی ہے۔
افسوس كى بات يہ كہ معاشرے میں کچھ عناصر نفرت پھیلانے کے لیے مذہب کا استعمال كر تے ہيں، مذہب كے نام پر زيادتى كرتے ہيں،ظلم ڈھانے ہيں،غير اسلامى اور غير شرعى عمل كو (justify) كرتے ہيں،يا ناحق خون بہاتے ہيں، مذہب کے نام پر دہشت گردی، انتہا پسندی، فرقہ وارانہ تشدد اور قتل و غارت گری کو ان سب معاملات اسلام كا كوئى تعلق نہيں، كوئى بھی مذہب دہشتگردی کی اجازت نہیں دیتا لیکن بدقسمتی سے اسلام کے بارے میں بہت پروپیگنڈا کیا گیا۔
کسی بھی اسلامی فرقے کو کافر قرار نہیں دیا جانا چاہئے اور کسی بھی مسلمان یا غیر مسلم فرد کے غیرقانونی قتل کا حکم نہیں دیا جانا چاہئے ، اور تمام مذاہب اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو اسلامى كے احكامات اپنی ذاتی اور مذہبی زندگی گزارنی چاہئے۔
ایسی کتابوں ، لٹریچر اور تحریروں کی کوئی اشاعت اور تقسیم نہیں ہونی چاہئے ، جو نفرت کو فروغ دیتے ہیں اور لوگوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرتے ہیں،اشتعال انگیز اور نفرت انگیز مواد پر مبنی کیسٹس اور انٹرنیٹ ویب سائٹوں پر مکمل پابندی عائد ہونی چاہئے،نفرت انگیز اور چوٹ پہنچانے والے جذبات کو فروغ دینے والے اشتعال انگیز نعروں کا تدارک کرنا چاہئے۔
اسلامى شريعت كے مطابق غیر مسلم لوگ کی عبادت گاہوں، مقدس مقامات کے ساتھ ساتھ جان و مال کا تحفظ بھی مسلمانوں کا فرض ہے؛ لہذا، جو لوگ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں، ان کے مقدس مقامات اور جان و مال سے بے اعتنائی کا مرتکب ہو رہے ہیں ان کے ساتھ حكومت كو سختی سے نمٹا جانا چاہئے۔
در حقيقت مذہب کے نام پر دہشتگردی، انتہا پسندی، فرقہ وارانہ تشدد، قتل و غارت گری خلاف اسلام ہے ، اسلامى شريعت كے مطابق تمام مذاہب ومسالك كے لوگ اپنى ذاتى ومذہبى زندگى گزاريں، کسی بھی اسلامی فرقے کو کافر نہ قرار دیا جائے اور کسی بھی مسلم یا غیر مسلم کو ماورائے عدالت واجب القتل قرار نہ دیا جائے۔
رحم، خیرخواہی اور امن پسندی اسلام کے بنیادی عناصر ہیں، اسلام میں پہلے سلام پھر کلام کی ترغیب آئی ہے،السلام علیکم کے صرف یہ معنی نہیں ہیں کہ تم پر سلامتی ہو، بلکہ یہ اس مفہوم پر بھی محیط ہے کہ تم میری طرف سے محفوظ و مامون ہو، اسلام میں ہر کام شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے، جس میں اللہ کے دو صفاتی نام یعنی رحمن ورحیم بھی شامل ہیں، یعنی بڑامہربان نہایت رحم والا ہے،اس طرح بندوں کے کیرکٹر پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
عملی طور پر ایک مسلمان کو یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ معاشرے میں امن وسلامتی کا پیغامبر بنے نہ کہ تشدد، نا انصافی اور ظلم و زیادتی کاسفیر، چنانچہ اسے حکم دیاگیا کہ ہر روز تشہد کے اندر بار بار ان الفاظ کی تکرارکرے:”السّلام علیک أیُّہا النبي ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ، السّلام علینا وعلیٰ عباد اللّٰہ الصالحین“.یہی نہیں بلکہ نماز کا اختتام ہی ان الفاظ پر ہوتا ہے ”السّلام علیکم ورحمة اللّٰہ“۔
اسلام نے پہلی بار دنیا کو امن ومحبت کا باقاعدہ درس دیا اور اس کے سامنے ایک پائیدار ضابطہٴ اخلاق پیش کیا، جس کا نام ہی ”اسلام“ رکھا گیا یعنی دائمی امن وسکون اور لازوال سلامتی کا مذہب، یہ امتیاز دنیا کے کسی مذہب کو حاصل نہیں، اسلام نے مضبوط بنیادوں پر امن وسکون کے ایک نئے باب کاآغاز کیا اور پوری علمی واخلاقی قوت اور فکری بلندی کے ساتھ اس کو وسعت دینے کی کوشش کی، آج دنیا میں امن وامان کا جو رجحان پایا جاتاہے اورہر طبقہ اپنے اپنے طور پر کسی گہورائہ سکون کی تلاش میں ہے، یہ بڑی حد تک اسلامی تعلیمات کی دین ہے۔
اسلام ظلم کوکسی حالت میں اور کسی بھی نام اور عنوان سے برداشت نہیں کرتا،وہ اپنے فرزندوں کو جان، مال ومذہب، عقیدہ، وطن، مذہبی مقدسات، شعائر دین، مساجد ومعابد وغیرہ کی حفاظت، ان کے دفاع اور کسی بھی طرح کی تعدی سے ان کے بچاؤ کی تدبیر کرنے کا ناگزیر حکم دیتا ہے اور ان ساری سازشوں کو ناکام بنادینے کا انہیں پابند بناتا ہے جو خود ان کے خلاف کی جائیں یا انسانیت کے خلاف روبہ عمل لائی جائیں۔
اسلام میں ظلم کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا، بلکہ اس کے برعکس یہ کہنا زیادہ موزوں ہوگا کہ اسلام دنیا ميں آ یا ہی ہے ظلم کے استیصال کے لیے، اس کی بیخ کنی کے لیے، خواہ وہ کسی بھی سطح پر موجود ہو۔ حدیث میں ہے:”مَن آذی الناس آذی اللّٰہ“ (جس نے لوگوں کو تکلیف پہنچائی، اللہ کو تکلیف پہنچائی) ۔ظاہر ہے اللہ کی ناراضگی کوئی مردمومن گوارہ نہیں کرسکتا،حدیث بالا میں کسی مذہب وملت کی قید نہیں ہے، بلکہ اس کا دائرہ ساری انسانیت پر محیط ہے:
یہ واحد مذہب ہے جس کی تعلیمات میں امن وسلامتی کا عنصر زیادہ ہے، وہ تمام معاملات میں ان پہلوؤں کو اختیار کرنے پر زور زیادہ دیتا ہے جن میں نہ خود کوئی زحمت اٹھانی پڑے اور نہ دوسروں کو کوئی تکلیف ہو، اللہ تعالیٰ نے مومنین کا یہ وصف بیان کیا ہے وہ تسامح اور صلح جوئی کو ترجیح دیتے ہیں، خاص طور پر اس وقت جبکہ فریق ثانی سے زیادتی اور جھگڑے کا اندیشہ ہو۔
”لاضرر ولاضرار“ اسلام کا وہ لائحہ عمل ہے، جس کی روشنی میں ممکنہ حد تک قوت اور اثرات کے ذریعہ مظلوم کی دستگیری کی جائے اور ظالم کو ظلم سے روک دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" لا یرحمُ اللّٰہ من لا یرحم النّاس“ " ۔ (دوسروں پر رحم نہ کرنے والا اللہ کی رحمت سے محروم رہتا ہے) ۔
خلاصہ یہ ہے کہ اسلام كے نام پر تشدد، دہشت گردى انتہا پسندی، فرقہ وارانہ تشدد، قتل و غارت گری خلاف اسلام ہے ، اسلام میں امن کا تصور اظہر من الشمس ہے ۔