مسلمان آج کے دور میں دنیا کی سب سے زیادہ پسی ہوئی قوم ہے دنیا میں جہاں بھی ظلم و تشدد ہو مسلمان ہی اس کا نشانہ بنتے ہیں ، اور جس طرح كہ فضيلت مآب امامِ اكبر شيخ الازہر صاحب نے بورما ميں ہونے والے واقعات كى شديد مذمت كرتے ہوئے كہا تھا كے اگر دنيا كى كسى اور قوم كے ساتھ ايسے واقعات پيش آ رہے ہوتے تو شايد دنيا كا يہ موقف نہ ہوتا، کشمیر سے لیکر فلسطین اور فلسطین سے لیکر شام ،عراق اور اب برما تقریبا ہی سبھی جگہ مسلمانوں پر ظلم و جبر جاری ہے۔
بورما ميں ہونے والے ظلم وستم كے واقعات كو كون نہيں جانتا!! ليكن اس پر مزيد روشنى ڈالنے كے لئے ہم قارئين حضرات كے لئے روہنگيا اور رخائن كے بارے ميں كچھ تفصيلى معلومات پيش كرتے ہيں :
روہنگیا کون ہیں؟
میانمار کی آبادی کی اکثریت بدھ مت سے تعلق رکھتی ہے۔ میانمار میں ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ روہنگیا مسلمان ہیں. ان مسلمانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر ہیں. حکومت نے انھیں شہریت دینے سے انکار کر دیا ہے تاہم یہ یہ ميانمار میں نسلوں سے رہ رہے ہیں. ریاست رخائن میں 2012 سے فرقہ وارانہ تشدد جاری ہے. اس تشدد میں بڑی تعداد میں لوگوں کی جانیں گئی ہیں اور ایک لاکھ سے زیادہ لوگ بےگھر ہوئے ہیں.
بڑی تعداد میں روہنگیا مسلمان آج بھی خستہ کیمپوں میں رہ رہے ہیں. انھیں وسیع پیمانے پر امتیازی سلوک اور زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے. لاکھوں کی تعداد میں بغیر دستاویزات والے روہنگیا بنگلہ دیش میں رہ رہے ہیں جو دہائیوں پہلے میانمار چھوڑ کر وہاں آئے تھے.
رخائن میں کیا ہو رہا ہے؟
میانمار میں موگڈوو سرحد پر نو پولیس افسران کے مارے جانے کے بعد گزشتہ ماہ ریاست رخائن میں سیکورٹی فورسز نے بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا تھا. کچھ حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ حملہ روہنگیا کمیونٹی کے لوگوں نے کیا تھا. اس کے بعد سکیورٹی فورسز نے موگڈوو ضلع کی سرحد کو مکمل طور پر بند کر دیا اور ایک وسیع آپریشن شروع کر دیا.
روہنگیا کارکنوں کا کہنا ہے کہ 100 سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں اور سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا ہے. ميانمار کے فوجیوں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے سنگین الزام لگ رہے ہیں جن میں تشدد، عصمت دری اور قتل کے الزامات شامل ہیں. تاہم حکومت نے اسے سرے سے مسترد کر دیا ہے. کہا جا رہا ہے کہ فوجی روہنگیا مسلمانوں پر حملے میں ہیلی کاپٹر بھی استعمال کر رہے ہیں.
میانمار میں 25 سال بعد گزشتہ سال اليكشن ہوئے تھے. اس انتخاب میں نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی پارٹی نیشنل لیگ فور ڈیموکریسی کو بہت بڑى كاميابى حاصل ہوئى، تاہم آئینی قوانین کی وجہ سے وہ الیکشن جیتنے کے بعد بھی صدر نہیں بن پائی تھیں ليكن کہا جاتا ہے کہ اصل کمان سو چی کے ہاتھوں میں ہی ہے.
بین الاقوامی سطح پر سو چی نشانے پر ہیں. الزام ہے کہ انسانی حقوق کی علم بردار ہونے کے باوجود وہ خاموش ہیں. حکومت سے سوال پوچھا جا رہا ہے کہ آخر رخائن میں صحافیوں کو کیوں نہیں جانے دیا جا رہا؟ صدر کے ترجمان زاو ہنی نے کہا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اس کی غلط رپورٹنگ ہو رہی ہے.آنگ سان سو چی ابھی اپنے ملک کی حقیقی لیڈر ہیں. تاہم ملک کی سلامتی آرمڈ فورسز کے ہاتھوں میں ہے. اگر سوچی بین الاقوامی دباؤ میں جھکتی ہیں اور ریاست رخائن کو لے کر کوئی قابل اعتماد انکوائری کراتی ہیں تو انہیں آرمی سے تصادم کا خطرہ اٹھانا پڑ سکتا ہے اور ان کی حکومت خطرے میں آ سکتی ہے.
گزشتہ چھ ہفتوں سے آنگ سان سو چی مکمل طور پر خاموش ہیں. وہ اس معاملے میں صحافیوں سے بات بھی نہیں کر رہیں. جب اس معاملے میں ان پر دباؤ پڑا تو انھوں نے کہا تھا کہ رخائن اسٹیٹ میں جو بھی ہو رہا ہے وہ 'رول آف لا' کے تحت ہے. اس معاملے میں بین الاقوامی سطح پر آواز اٹھ رہی ہے. میانمار میں روہنگیا کے بارے میں ہمدردی نہ کے برابر ہے اور روہنگیا کے خلاف آرمی کے اس اقدام کی جم کر حمایت ہو رہی ہے.
بنگلہ دیش کے اعتراض
بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے میانمار کے سفیر سے اس معاملے پر گہری تشویش ظاہر کی ہے. بنگلہ دیش نے کہا کہ پریشان لوگ سرحد پار کر محفوظ ٹھکانے کی تلاش میں یہاں آ رہے ہیں.
بنگلہ دیش نے کہا کہ سرحد پر نظم و ضبط قابو میں رکھا جانا چاہیے. بنگلہ دیش اتھارٹی کی جانب سے سرحد پار کرنے والوں کو پھر سے میانمار واپس بھیجا جا رہا ہے. ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس کی سخت مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے.
بنگلہ دیش روہنگیا مسلمانوں کو پناہ گزین کے طور پر قبول نہیں کر رہا. روہنگیا پناہ گزین 1970 کی دہائی سے ہی میانمار سے بنگلہ دیش آ رہے ہیں. ہیومن رائٹس واچ كى ایک سیٹلائٹ تصویر کے مطابق گزشتہ چھ ہفتوں میں روہنگیا مسلمانوں کے 1،200 گھر گرا دیے گئے ہيں .
میانمار میں جہاد
2015 میں تحریک طالبان کے ایک گروپ جماعۃ الاحرار نے روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے خلاف میانمار میں جہاد شروع کرنے کی اپیل کردی۔ جماعۃ الاحرارکے ترجمان احسان اللہ احسان نے کہا ہم میانمار (برما) کے مظلوم مسلمانوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں ،میانمار کے مسلمانوں کو وہاں حکمرانوں کے خلاف جہاد شروع کردینا چاہیے، طالبان کے وسائل اور تربیت فراہمی کی سہولت ان کے لئے حاضر ہے۔
اپنے آڈیو پیغام میں احسان اللہ احسان نے کہا میں برما کے نوجوانوں کو خطاب کر کے کہتا ہوں کہ تلوار اٹھاؤ اور اللہ کے راستے میں قتال شروع کرو، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے، ہمارے سنٹر، ہمارے وسائل، ٹریننگ، لوگ اور ہر چیز آپ کی سہولت کیلئے حاضر ہے۔
ليكن کیا راخائن میں کوئی جہاد ہورہا ہے؟
روہنگیا مسلمانوں کا معاملہ سراسر لسانی مسئلہ ہے اور ان کی عسکری تنظیم اراکان روہنگیا سلویشن آرمی اس معاملے کو قومی جنگ قرار دیتی ہےروہنگیا مسلمانوں کی تنظیم کا قیام 2013 میں کراچی میں پیدا ہونے والے ایک برمی عطااللہ نے کیا جسے ابوامر جنجونی کے نام سے جانا جاتا ہے-عبداللہ سلویشن آرمی کے ترجمان ہیں، ان کا کہنا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے معاملے کو جہاد کی کوئی قسم نہ سمجھا جائے، ان کی لڑائی مذہبی نہیں ہے-برما کے حکام بھی رخائن مسلمانوں کی مزاحمت کو جہاد سے تعبیر نہیں کرتے بلکہ انہیں بنگالی دہشت گرد کہتے ہیں، میانمار میں 27 تنظیموں کو دہشت گرد قرار دیا گیا ہے، ان میں ایک سلویشن آرمی بھی ہے اور ان کو بنگالی دہشت گرد قرار دے کر پابندی عائد کی گئی ہے-
برما اور روہنگیا مسلمانوں میں وجہ تنازع مذہب نہیں، بلکہ شہریت ہے، میانمار انہیں اپنے ملک کا شہری تسلیم نہیں کرتا، انہیں بنیادی حقوق کے ساتھ سفر کی سہولیات سے محروم رکھا ہوا ہے اور شہریت کا یہ تنازع برما کے ایک ڈکٹیٹر کی پالیسی سے شروع ہوا، جس کی حمایت آنگ سانگ سوچی بھی کررہی ہے جو انتہائی قابل مذمت ہے-میانمار کا معاملہ مذہبی جنگ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ صرف پوری دنیا کے مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کے انسانوں کا مسئلہ ہے، روہنگیا مسلمانوں پر برمی فوج ظلم کررہی ہے اور دنیا کو تمام تفریقات بالائے طاق رکھ کر اس مسئلے سے نمٹنا ہوگا، بلا شك وشبہ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی ایک غیرانسانی فعل ہے مگر اس نسل کشی پہ دکانیں چمکاتے انتہاپسندی کے ٹھیکے دار بھی قابل مذمت ہیں.
الله رب العزت نے انسان كو اشرف المخلوقات كا درجہ ديا اور انسانى جان كو نہايت بلند اور عظيم مرتبہ ديا ہے، يہاں تك كہ ايك انسان كے قتل كو پورى انسانيت كا خون كرنے كے برابر مقرر كيا ہے ، قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ــ’’جس نے کسی انسان کی جان بچائی گویا اس نے ساری انسانیت کی جان کو محفوظ بنایا اور اسی طرح جب کسی نے بے گناہ انسان کا خون بہایا گويا کہ اس نے انسانیت کا خون کیا ہے‘‘اس بات سے واضح ہوتاہے کہ اسلام کسی بھی صورت میں خون کے بہانے کے حق میں نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ کلام مجید میں صرف مسلمانوں کے خون کی بات نہیں کی گئى بلکہ لفظ ناس (یعنی لوگ ) کا استعمال کرکے بات کو صاف اور واضح انداز میں بیان فرمادیا کہ اسلام مسلمان يا غیر مسلمان ،کافر و مومن،فاسق و فاجر،ظالم و عادل سبھی کی جان و مال کی حفاظت کی تاکید کرتاہے تاوقتیکہ ان سے کھلا جرم و ظلم ثابت نہ ہوجائے اور پھر طاغوتیت کے ارتکاب کی صورت میں بھی حدود و قیود مقرر کردی ہیں کہ قصاص میں قتل کیاجائے گا ، سزا تجویز کرنے کا اختیار ملك كى حکومت و عدالت کو ہوگا، بذات خود قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا جائے گا،بلكہ اس كو لينا جرم ہوگا ،سزادیتے وقت اس میں مبالغہ و زیادتی نہیں کی جائے گی بقدر جرم سزا مقدر ہوگی۔ كيونكہ اسى طريقہ سےملک و ملت میں امن و سلامتی کی صورتحال مستحکم رہ سکتى ہے۔
عید الاضحى جوکہ اطاعت، قربانى اور خوشیوں کا پيغام لے كر آتى ہے روہنگیا مسلمانو ں پر جاری ظلم وتشدد کی نظر ہوگئی۔ ظلم وتشدد كے یہ واقعات روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ پہلی دفعہ تو نہیں ہو ر ہے بلکہ اس سےپہلے بھی روہنگیا کے مسلمان برما کی حکومت اور فوج کے غیض و غضب کاشکار بن چکے ہیں۔ہم سبھی اس سے قبل روہنگیا کے مسلمانوں پر جبر و استعدادکی خبروں سے بے خبر رہتے آئے ہیں۔جب گزشتہ سال روہنگیا کی مسلمانوں پر برما کی زمین تنگ کردی گئی ۔تب ہمیں اخبارات اور سوشل میڈیاکے ذريعہ کسی حد تک آگاہی حاصل ہوتی رہی تاہم بعد میں ظلم و جبر کا سلسلہ تھم گیا۔اور حالات پر کسی حد تک قابو پالیا گیا۔اچانکہ پھر سے 25 اگست کی شام سے سوشل میڈیا پر روہنگیا کے مسلمانوں پر مظالم کی تازہ خبروں، تصاویر اور ویڈیوز نے نہ صرف مسلمانوں بلكہ انسانيت کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان پر ايسے انسانیت سوزمظالم ڈھائے جارہے ہیں۔جنہیں دیکھ کر انسانیت بھی شرماگئى ہے ليكن تاریخ پر نظر ڈورانے سے پتہ چلا کہ اس کے پیچھے بہت سارے عوامل کرفرما ہیں۔
میانمار کاصوبہ رخائن جسے اراکان بھی کہا جاتا ہے انسانيت سوز جرائم پر گواہى دے رہا ہے ۔عورتوں كى عزت خطره ميں ہے ۔بچوں اور بوڑھوں پر ترس کھانے والا کوئی نہیں۔اس تناظر میں میانمار کی عالمی امن نوبل انعام یافتہ رہنما کی خاموشی بہت سارے سوالات جنم دے رہی ہے۔میڈیا کے سامنے كہا جاتا ہے کہ میانمار کے صوبے راخائن میں کچھ بھی نہیں ہو رہا ہے سب ٹھیک ہے ۔میڈیا میں جو کچھ دیکھا یا جا رہا ہے یہ ماضی سے جڑی خبریں ،تصاویر اور ویڈیوز ہیں جنہیں ایک خاص طبقہ میانمار کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کررہا ہے ۔
2012 سے لے كر آج تك شيخ الازہر نے ان لا چار مسلمانوں كا ساتھ دينے كى ہر ممكن كوشش كى ہے ، 2015 نےاس مسئلہ كو قريب سے ديكھنے اور سمجھنے كے لئے نے بورما كے مسلمانوں كے مفتى سے ملاقات كى، جنورى 2017 ميں ايك بڑے كانفرنس كا انعقاد ہوا جس ميں بورما كے مختلف مذاہب كے پيروكاروں نے شركت كى اور جس ميں شيخ الازہر نے ان كو انسانيت كے پرچم تلے جمع ہونے كى دعوت دى ۔ چند دن پہلے ہى آ پ نے ايك پر زور بيان ديا جس ميں ہر زمہ دار شخص يا اداره سے اپنى زمہ دارى اٹھانے كا مطالبہ كيا ، مرصد الازہر نے بھى 2015 سے اس مسئلہ پر روشنى ڈالنے كے لئے " بورما كے مسلمان " كے عنوان سے ايك كتاب لكھى ، ہم دنيا بھر كى مختلف زبانوں ميں اپنى آواز پہنچانے كى كوشش كرتے ہيں ، ہمارا يہ چھوٹا سا عمل بظاہر چھوٹا ہی صحیح مگر اس کے دور رس اثرات مرتب ہو سكتے ہیں۔ہم ہر فورم ، ہر سطح اورہر جگہ برما کے مسلمانوں کے حق میں اور برما کی حکومت اور فوج کے ظلم كے خلا ف اپنا احتجاج ریکارڈ کريں گے . اپنے اس موضوع كا اختتام ہم شيخ الازہر كے بيان كے آخرى الفاظ سے كرتے ہيں : آپ اس ظالمانہ حملے كے سامنے ڈٹے رہیں ، ہم آپ کے ساتھ ہيں ، اور ہم آپ کو ہرگز بے يار ومددگار نہيں چھوڑيں گے، الله تعالى مددگار اور حامى ہے.. اور جان لو كہ بے شک الله تعالى فاسدوں كے عمل كو درست نہيں كرتا، اور يہ كہ " جنہوں نے ظلم كيا ہے وه بھى ابھى جان ليں گے كہ كس كروٹ الٹتے ہيں" (سورۀ الشعراء: 227)۔